سنو پیارے . . . !

سنو پیارے . . . !

مجھے معلوم ہے آسان لگتا ہے

تمہیں راہیں بدل لینا

کوئی بھی موڑ مُڑ جانا

کسی منزل کو ٹھوکر مار کر واپس چلے آنا

یا منزل کو فقط اک جنبش لب سے

بہت نزدیک لے آنا

مجھے معلوم ہے پیارے

بہت آسان ہے تم کو واپس پلٹ جانا

میری تم بے بسی دیکھو

مجھے تم سے محبت کے سوا کچھ نہیں آتا

مگر اس میں بھی کب کوئی قرینہ سیکھ پائی میں

یہ دیکھو آنکھ رونا چاہتی ہے

پھر بھی بنجر ہے

یہ دیکھو ہاتھ کتنے سرد ہیں میرے

یہ دیکھو دل کی دھڑکن کس تیرا ترتیب کھو کر ڈوبنے کو ہے

یہ دیکھو میرا آنچل میرے ہاتھوں سے پھسل کر اُڑ گیا کب سے

یہ دیکھو سانس کی ڈوری بھی مجھ سے چھوٹنے کو ہے

میرے احساس کا ریشم الجھ کر ٹوٹنے کو ہے

مجھے تو یہ ہنر بالکل نہیں آتا

کے کیسے اپنے زخموں کو چھپاتے ہیں ؟

یا کیسے درد کو درمان بناتے ہیں ؟

یا کیسے روٹھتی سانسوں کا دامن

تھام کر واپس بلاتے ہیں ؟

بہت بے خواب اور ویران موسم میں

خفا نیندوں کو کیا کہہ کر مناتے ہیں ؟

مجھے یہ ہنر بالکل نہیں آتا

کے کیسے اپنے مر جانے پہ نوحے آپ کرتے ہیں ؟

یا اپنے ہی گلے لگ کر دلاسا کیسے بانٹتے ہیں ؟

پھر اپنی ہی لاش کو کیسے . . . .

کسی پایاب دریا . . . .

یا کسی کی ادھ بجھی تازہ چِتا میں جھونک دیتے ہیں ؟

یا پھر آکاش کے نیچے کھلا ہی چھوڑ دیتے ہیں ؟

مجھے تو یہ ہنر بالکل نہیں آتا . . . .

کے کیسے زرد موسم میں . . . .

کسی بھی سرد اور بے درد موسم میں

خوشی کا ایک بھی غنچہ . . . . .

بھلا کیسے کھلاتے ہیں ؟

یا کیسے آدھے راستے سے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں ؟

مجھے بالکل نہیں آتا . . .

مجھے تم سے محبت کے سوا . . . .

مگر وہ بھی کہاں آئی

کوئی . . . ہنر . . . بالکل . . . نہیں . . . . آتا ! ! ! !


Posted on Feb 16, 2011