تعبیر کے بغیر
ہم کیوں ملے ہیں تقدیر کے بغیر
کیا فائدہ ہے خواب کا تعبیر کے بغیر ،
تیرے بغیر گھر میرا سونا ہے اس طرح
جیسے کوئی فریم ہو تصویر کے بغیر ،
یوں کیجے کے سادہ ورق چوم لیجئے
آٹو گراف دیجئے تحریر کے بغیر ،
دستک دیے بغیر چلے آئیں رنج و غم
دروازہ حیات ہے زنجیر کے بغیر ،
اب تو زبان زبان پر ہیں گمنامیاں میری
مشہور ہو گیا ہوں میں تشہیر کے بغیر ،
میں چاہتا ہوں پھر سے مجھے قید کیجیے
پاؤں میرے اُداس ہیں زنجیر کے بغیر ،
نور ! خیال و خواب کی دنیا بھی تھی عجیب
کیا کیا محل بنا لیے تعمیر کے بغیر ،
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ