یوں ہی امید دلاتے ہیں زمانے والے
یوں ہی امید دلاتے ہیں زمانے والے
کب پلٹتے ہیں بھلا چھوڑ کے جانے والے
تو کبھی دیکھ جھلستے ہوئے صحرا میں درخت
کیسے جلتے ہیں وفاؤں کو نبھانے والے
ان سے آتی ہے تیرے لمس کی خوشبو اب تک
خط نکالے ہوئے بیٹھا ہوں پرانے والے
آ کبھی دیکھ ذرا ان کی شبوں میں آکر
کتنا روتے ہیں زمانے کو ہنسانے والے
کچھ تو آنکھوں کی زبانی بھی کہے جاتے ہیں
راز ہوتے نہیں سب منه سے بتانے والے
آج نا چاند نا تارا ہے نا جگنو کوئی
رابطے ختم ہوئے ان سے ملانے والے . . . . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ