یونہی کیا کل بھی میرے گھر میں اندھیرا ہوگا
یونہی کیا کل بھی میرے گھر میں اندھیرا ہوگا
رات کے بعد سنا ہے کے سویرا ہوگا
میں تو لٹ جاؤنگا لیکن میرے لٹ جانے کے بعد
خود ہی لٹ جانے کو بیتاب لٹیرا ہوگا
شمع ایک موم کے پیکر کے سوا کچھ بھی نہیں
آگ جب تن میں لگتی ہے تو جان آتی ہے
ہم سمندر کی طرح ظرف وسیع رکھتے ہیں
دل میں طوفان ہو چہرے پے سکون رکھتے ہیں
بیٹھے ہوئے دیتے ہیں وہ دامن سے ہوائیں
اللہ کرے ہم نا کبھی ہوش میں آئیں
سب کے ہونٹوں پے تبسم تھا میرے قتل کے بعد
جانے کیا سوچ کر روتا رہا قاتل تنہا
تلخی غم نا چھلک جائے کہیں آنکھوں سے
مسکراتا ہوں یہی راز چھپانے کے لیے
یہ کیا ہوا تیری دنیا کو اے خدا کریم
کے زندہ لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیے
رہا یونہی نامکمل میرے عشق کا فسانہ
کبھی مجھ کو نیند آئی کبھی سو گیا زمانہ
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
شمع نے جان لی اس وھم میں پروانے کی
صبح کو عام نا ہو جائے کہیں رات کی بات
حادثوں کا کیا ہے یہ تو زندگی کا ساتھ ہیں
ایک سے بچ کر چلوگے تو دوسرا مل جائیگا
دامن کو ہاتھ میں لیے کہتا تھا یہ قاتل
کب تک اسے دھوتا رہوں لالی نہیں جاتی
دل نے ایک چیز بے بہا مانگی ہے
حسن مغرور کی فطرت سے وفا مانگی ہے
یونہی کیا کل بھی میرے گھر میں اندھیرا ہوگا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ