آسمان کے رنگوں میں رنگ ہے شہابی سا
دھیان میں ہے چہرہ ایک مہتابی سا
مزاروں نے کرنوں کا پیرہن جو پنہا ہے
میں نے اس کا رکھا ہے نام آفْتابی سا
کون کہہ گیا ہے موت ٹوٹنے سے آتی ہے
گل نے تو بکھر کے باغ کر دیا گلابی سا
پھر ہوا چلی شاید بھولے بسرے خوابوں کی
دل میں اٹھ رہا ہے کچھ شوق اضطرابی سا
تلخیوں نے پھر شاید اک سوال دہرایہ
گُھل رہا ہے ہونٹوں میں ذائقہ جوابی سا
حرف پیار کے سارے آ گئے تھے آنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا
بوند بوند ہوتی ہے رنگ و نور کی برکھا
جب بھی موسم آیا ہے نینا میں شرابی سا . . . . !
Posted on Nov 14, 2011
سماجی رابطہ