ایک ہنر ہے جو کر گیا ہوں میں
سب کے دل سے اُتَر گیا ہوں میں
کیسی اپنی ہنسی کو ضبط کروں
سن رہا ہوں کے گھر گیا ہوں میں
کیا بتاؤ کے مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں
اب ہے بس اپنا سامنا درپیش
ہر کسی سے گزر گیا ہوں میں
عجب الزام ہوں زمانے کا
کے یہاں سب کے سر گیا ہوں میں
کبھی خود تک پہنچ نہیں پایا
جب کے وہاں عمر بھر گیا ہوں میں
تم سے جاناں ملا ہوں جس دن سے
خود سے ڈر گیا ہوں میں
کوئے ای جاناں میں سوگ برپا ہے
کے اچانک ، سدھر گیا ہوں میں . . . !
Posted on Apr 26, 2012
سماجی رابطہ