بارش میں ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام ،
بارش میں ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام
تم نے لیا تھا کانپتے ہونٹوں سے میرا نام
میں نے کہا تھا آؤ یونہی بھیگتے چلیں
ان راستوں میں دیر تک گھومتے رہیں
میری کمر میں یہ ہاتھ پھولوں سا ڈال کر
کاندھے پے میرے یونہی رکھے رہو اپنا سر
ہاتھوں کو میں کبھی ! کبھی بالوں کو چوم لوں
دیکھو میری طرف تو آنکھوں کو چوم لوں
پانی کے یہ جو پھول ہیں رخسار پے کھلے ہوئے
ان میں دھنک کے رنگ ہیں سارے گھلے ہوئے
ہونٹوں سے ان کو چنتے رہیں خوش دلی کے ساتھ
یونہی کسی درخت کے نیچے کھڑے رہیں
بارش کے دیر بعد بھی لپٹے کھڑے رہیں
نشہ سا چاروں اوڑھ پھیلتا گیا
پھر اس کے بعد میں نے تمہیں کچھ نہیں کہا !
بارش میں ہم تھے اور گھنی ہو رہی تھی شام ،
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ