بھیڑ میں اک اجنبی کا سامنا اچھا لگا
سب سے چھپ کر وہ کسی کا دیکھنا اچھا لگا
سرمئی آنکھوں کے نیچے پھول سے کھلنے لگے
کہتے کہتے کچھ کسی کا سوچنا اچھا لگا
بات تو کچھ بھی نہیں تھی لیکن اس کا ایک دم
ہاتھ کو ہونٹوں پہ رکھ کر روکنا اچھا لگا
چائے میں چینی ملانا اس گھڑی بھایا بہت
زیر لب وہ مسکراتا شکریہ اچھا لگا
دل میں کتنے عہد باندھے تھے بھلانے کے اسے
وہ ملا تو سب ارادے توڑنا اچھا لگا
بے اِرادَہ لمس کی وہ سنسنی پیاری لگی
کم توجہ آنکھ کا وہ دیکھنا اچھا لگا
نیم شب کی خامشی میں بھیگتی سڑکوں پہ کل
تیری یادوں کے جالوں میں گھومنا اچھا لگا
اس عدوئے جان کو امجد میں برا کیسے کہوں
جب بھی آیا سامنے وہ بیوفا اچھا لگا
Posted on May 06, 2011
سماجی رابطہ