دل لگی تھی کے سلگتی رہی ہر دھڑکن میں

دل لگی تھی کے سلگتی رہی ہر دھڑکن میں

دل لگی تھی کے سلگتی رہی ہر دھڑکن میں
جانِ لیتی رہی یہ آگ ، تیری چاہ کے ساتھ

بے ، اِرادَہ ہی تیری سمت سفر کو نکلی
تو نے خود بھی کی پذیرائی ، بڑے مان کے ساتھ

جی یہ چاہے کے چرالوں میں ، نگاہیں سب سے
تجھ کو سوچوں ، تجھے چاہوں میں کسی خواب کے ساتھ

تو ملے یا نا ملے ، تیری محبت ہو میری
عمر گزرے میری بس یونہی ، تیرے نام کے ساتھ

جانِ جاں ، شوخ سخن ، چاند کہوں یا سورج
کتنے عنوان ہوئے منسوب ، تیری ذات کے ساتھ

پھر بہت شوق سے موت آئے تو حسرت ہی نا ہو
تیرے سنگ بیتے میری صبح ، کوئی شام کے ساتھ

میرے سپنوں کو صدا یونہی مہکتا رکھنا
میں نے تھاما ہے تیرا ہاتھ بڑے ناز کے ساتھ

Posted on Feb 16, 2011