چلنے کا حوصلہ نہیں ، رکنا محال کر دیا ، 
 عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا ، 
 
 ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی ، 
 اسنے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا ، 
 
 اے میری گل زمین تجھے چاھ تھے ایک کتاب کی ، 
 اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کر دیا ، 
 
 ممکنہ فیصلوں میں ایک حجر کا فیصلہ بھی تھا ، 
 ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا ، 
 
 میرے لبوں پر مہر تھی ، پر میری شیشہ روح نے تو ، 
 شہر کے شہر کو میرا واقف ای حال کر دیا ، 
 
 چہرہ و نام ایک ساتھ آج نا یاد آ سکے ، 
 وقت نے کس شبیہہ کو خواب و خیال کر دیا ، 
 
 کے مدتوں بعد اسنے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا ، 
 منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بَحال کر دیا . . . ! 
Posted on Aug 03, 2012







سماجی رابطہ