سلسلہ جرات اظہار تک ، آ پہنچا ہے
اب میرا شوق سفر ، در تک آ پہنچا ہے
شام اب اس کے سوا اور بھلا کیا ہو گی
اب تو سایہ میری دیوار تک آ پہنچا ہے
اسکو تعبیر خدا جانے ملے گی کے نہیں
خواب تو دیدا بیدار تک آ پہنچا ہے
تو بتا دائی کے اب تیرا اِرادَہ کیا ہے ؟
عشق میرا تیرے معیار تک آ پہنچا ہے
اب بحر طور کوئی فیصلہ کرنا ہو گا
مسئلہ اب میرے پنڈار تک آ پہنچا ہے
سر جھکانا تیری عادت بھی نہیں ہے اَخْتَر
اور ہاتھ اسکا بھی تلوار تک آ پہنچا ہے . . . !
Posted on Oct 26, 2011
سماجی رابطہ