ایک پشیماں سی حسرت سے مجھے سوچتا ہے
اب وہی شہر محبت سے مجھے سوچتا ہے
میں تو محدود سے لمحوں میں ملی تھی اس کو
پھر بھی وہ کتنی وضاحت سے مجھے سوچتا ہے
جس نے سوچا ہی نا تھا حجر کا ممکن ہونا
دکھ میں ڈوبی ہوئی حیرت سے مجھے سوچتا ہے
اگر چھ اب ترک مراسم کو بہت دیر ہوئی
اب بھی وہ میری اِجازَت سے مجھے سوچتا ہے
کتنا خوش فہم ہے وہ شخص کے ہر موسم میں
ایک نئے رخ ، نئے صورت سے مجھے سوچتا ہے . . . !
Posted on Feb 10, 2012
سماجی رابطہ