میں تلاش میں ہوں کسی اور کی ، مجھے ڈھونڈتا کوئی اور ہے
میں سوال ہوں کیسے اور کا ، میرا مسئلہ کوئی اور ہے
کبھی چاند چہروں کی بھیڑ سے جو نکل کے آیا تو یہ کھلا
وہ جو اصل تھا اسے کھو دیا ، جیسے پا لیا کوئی اور ہے
کٹی عمر اسی چاہ میں ، اسے دیکھتے کیسے راہ میں
مگر اک زمانے کے بعد جو ہوا آشنا کوئی اور ہے
فقط اک پل کے فرق میں ، کئی خواب کرچیاں ہو گئے
جو پلٹ کے آئے تو یوں لگا یہاں سلسلہ کوئی اور ہے
وہی لوگ ہیں ، وہی نام ہیں ، وہی گھر ، وہی ڈر او بام ہیں
مگر اب دریچوں کی اوٹ سے ہمیں جھانکتا کوئی اور ہے
کیسے آنے والے سفر کی جب کرو ابتدا تو یہ سوچنا
میں اکیلا اس میں شریک ہوں ، یا میرے سوا کوئی اور ہے
اسے مل کے آئے تو شام کو مجھے آئینے نے کہا سنو
وہ جو صبح دم تھا حسن رضا وہ تم ہی ہو یا کوئی اور ہے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ