میں اپنی سوچ کی ہر سوچ میں یہی سوچوں

میں اپنی سوچ کی ہر سوچ میں یہی سوچوں
نا جانے تجھ سے عقیدت کا کون سا بندھن ہے
ہے چاہتوں کا تعلق یا دوستی کی گرھ
یا کوئی رشتہ صبح ازل ہے روحوں کا
کے رات دن تیری سوچوں میں مست رہتا ہوں
میں تیری یاد کے انمٹ نقوش میں ڈوبا
یوں تیرے پیار کی موجوں میں مست رہتا ہوں
تیرے خیال کو معراج عاشقی سمجھوں
تیرے جمال کو معراج شاعری سمجھوں
تیرے وصال کو معراج زندگی سمجھوں
مگر میں صبح و ماسا سوچ سوچ کر سوچوں
کے تیرا حجر بھی آئے گا ایک دن آخر
تو میرے ذہن کی سب کہکشائیں ٹوٹیں گی
نا تیرے قرب کے لمحات لوٹ پائیں گے
نا تیری یاد کی یہ کشتیاں ہی ڈوبے گی
مگر میں حسن ازل سے سدا دعا گو ہوں
میرے خدا میرے دل کی یہ التجا سن لے
کے اب کی بار جو لمحات قرب یار آئیں
تمام عالم موجود بھی گواہی دے
ہم ایک دوسرے کو دیکھتے رہیں شاہی
نا دھڑکنوں کی سدا تک ہمیں سنائی دے
مجھے جو قرب کی لذت سے آشنا کر دے
وہ رات لاکھوں برس پہ محیط ہو جائے
تو ایسی صبحوں کے سورج کو اندھا کر دینا
جو میرے یار کو مجھ سے چرا کے لے جائے . . . . !

Posted on May 12, 2012