نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
چہرہ میرا تھا نگاہیں اس کی
خاموشی میں بھی وہ باتیں اس کی
میرے چہرے پے غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اس کی
شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوتی ہوئی سانسیں اس کی
ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبح جب اپنی تھیں شامیں اس کی
دھیان میں اس کے یہ عالم تھا کبھی
آنکھ مہتاب کی یادیں اس کی
فیصلہ موج ہوا نے لکھا
آندھیاں میری بہاریں اس کی
نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اس کی
دور راہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مجھ کو تھامے ہوئے بانہیں اس کی
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ