قرار چھین لیا بے قرار چھوڑ گئے
بہار لے گئے یادِ بہار چھوڑ گئے
ہماری چشم حزیں کا خیال کچھ نہ کیا
وہ عمر بھر کے لئے اشکبار چھوڑ گئے
جسے سمجھتے تھے اپنا وہ اتنی مدت سے
اسی کو آج وہ بیگانہ وار چھوڑ گئے
رگوں میں اک طبش درد کار جاگ اٹھی
دلوں میں اک خلشِ انتظار چھوڑ گئے
ہوائے شام سے آنے لگی صدائے فغاں
فضائے شوق کو ماتم گسار چھوڑ گئے
نشاطِ محفل لیل و نہار لوٹ لیا
نصیب میں غمِ لیل و نہار چھوڑ گئے
گھٹائیں چھائی ہیں ساون ہے مینہ برستا ہے
وہ کس سمے میں ہمیں اشکبار چھوڑ گئے
دل حزیں ہے اب اور عہد رفتہ کا ماتم
چمن کے سینے پہ داغِ بہار چھوڑ گئے
چھڑا کے دامن امیدِ دل کے ہاتھوں سے
سواد یاس میں ماتم گسار چھوڑ گئے
نہ آیا رحم میرے آنسوؤں کی مِنت پر
کیا قبول نہ پھولوں کا ہار چھوڑ گئے
امید و شوق سے آباد تھا ہمارا دل
امید و شوق کہاں اک مزار چھوڑ گئے
تمام عمر ہے اب اور فراق کی راتیں
یہ نقش گیسوئے مشکیں بہار چھوڑ گئے
ترس رہے ہیں مسرت کو عشق کے ارماں
ہمیں ستم زدہ و سوگوار چھوڑ گئے
امید خستہ، سکوں مضطرب ، خوشی بسمل
جہانِ شوق کو آشفتہ کار چھوڑ گئے
نگاہ درد کی غرض حزیں قبول نہ کی
ہمیں وہ غمزدہ و دلفگار چھوڑ گئے
کسے خبر ہے کہ اب پھر کبھی ملیں نہ ملیں
نظر میں ایک ابدی انتظار چھوڑ گئے
ہماری یاد بھُلا کر وہ چل دیے اختر
اور اپنی یاد ، فقط یادگار چھوڑ گئے
قرار چھین لیا بے قرار چھوڑ گئے
Posted on May 19, 2011
سماجی رابطہ