راہ آسان ہو گئی ہو گی
جان پہچان ہو گئی ہو گی ،
پھر پلٹ کر نگاہ نہیں آئی ،
تجھ پہ قربان ہو گئی ہو گی ،
تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صباء ،
خود پریشان ہو گئی ہوگی ،
موت سے تیرے درد مندوں کی .
مشکل آسان ہو گئی ہو گی ،
اس سے بھی چھین لو گے یاد اپنی ،
جن کا ایمان ہو گئی ہو گی ،
دل کی تسکین پوچھتے ہیں آپ ،
ہاں میری جان ہو گئی ہو گی ،
مرنے والوں پہ سیف حیرت کیوں ؟
موت آسان ہو گئی ہو گی ،
Posted on Aug 24, 2012
سماجی رابطہ