کبھی وہ آنکھ کبھی فیصلہ بدلتا ہے
فقیہہ شہر سفینہ بدست چلتا ہے
وہ میری آنکھیں جنہیں تم نے طاق پر رکھا
انہی میں منزل جان کا سوراغ ملتا ہے
اب اگلے موڑ کی وحشت سے دل نہیں ہارو
زوال شام سے منظر نیا نکلتا ہے
مجھے سوال کی دہلیز پار کرنی ہے
یہ دیکھنے کے اِرادَہ کہاں بدلتا ہے
شکست ساعت جان ورثہ زمیں تو نہیں
بھنور کا پاؤں سواد سفر نکلتا ہے
ہزیمتوں کی صلیبوں کو شب چراغ کرو
کے آندھیوں کا سفینہ یونہی سنبھلتا ہے
گلی گلی میں خاموشی کواڑ پیٹے ہے
یہ کون ہے جو نئی کونپلیں بدلتا ہے
مِری زباں پہ کوئی ذائقہ ٹھہر نہ سکا
کے مجھ میں اور کوئی پیرہن بدلتا ہے
Posted on Aug 24, 2012
سماجی رابطہ