سنا ہے
جب ہچکی آتی ہے
تو کوئی یاد کرتا ہے
اگر اس بات میں
تھوڑی سی بھی حقیقت ہے
تو نا ممکن ہے
کے تمہاری ہچکی
ایک پل بھی رکتی ہو . . . !
سنا ہے
سنا ہے
سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چاش ایم ناز اس کی
سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کو بھی ہے شاعر او شاعری سے شغف
سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام فلک سے اُتَر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے حشر ہیں اس کی غزل سی آنکھیں
سنا ہے اس کو حیران دشت بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات سے بھر کر ہیں کاکلیں اس کی
سنا ہے شام کو سائے گزر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کی سیا چشمگی قیامت ہے
سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
سو ہم بھی باہر پے الزام دھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے آئینہ تمثال ہے جبیں اس کی
جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں
سنا ہے جب سے حمائل ہیں اس کی گردن میں
مزاج اور ہی لال او گہار کے دیکھتے ہیں
سنا ہے چشم تصور سے دشت امکان میں
پلنگ زاویئے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
کہہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں
بس اک نگاہ سے لٹا ہے قافلہ دل کا
سو رہ زن تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستان سے متصل ہے بہشت
مکین ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں
رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کیسے نصیب کے بے پرہن اسے دیکھے
کبھی کبھی ڈر او دیوار گھر کے دیکھتے ہیں
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
اب اس کے شہر میں تھیرے کے کوچ کر جائے
فراز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں
ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
فراز اب ذرا لہجہ بدال کے دیکھتے ہیں
جدائیاں تو مقدر میں ہیں پھر بھی جان -e- سفر
کچھ اور ڈور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
راہ -e- وفا میں حریم خیال کوئی تو ہو
سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
تو سامنے ہے تو پھر یقین کیوں نہیں آتا
یہ بر بر جو آنکھوں کو مال کے دیکھتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں
جو لالچوں سے تجھے ، مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں
یہ قرب کیا ہے کہہ یاک جان ہووے نا ڈور رہے
ہزار اک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
نا تجھ کو مات ہوئی نا مجھ کو مات ہوئی
سو اب کے دونوں ہی چلیں بدال کے دیکھتے ہیں
یہ کون ہے سر -e- ساحل کے ڈبانے والے
سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں
ابھی تلک نا کندن ہووے نا راکھ ہووے
ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں
بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اس کی خیر خبر
چلو فراز کوئے -e- یار چل کے دیکھتے ہیں ،
سماجی رابطہ