تم جو ہستے ہو تو پھولوں کی ادا لگتے ہو
اور چلتے ہو تو ایک بعد صباء لگتے ہو
کچھ نا کہنا میرے کاندھے پہ جھکا کر سر کو
کتنے معصوم ہو تصویر وفا لگتے ہو
بات کرتے ہو تو ساگر سے کھنک جاتے ہو
لہر کا گیت ہو کوئل کی سدا لگتے ہو
کس طرف جاؤ گے زلفوں کے یہ بادل لے کر
آج مچلی ہوئی ساون کی گھٹا لگتے ہو
تم جسے دیکھ لو پینے کی ضرورت کیا ہے ؟
زندگی بھر جو رہے ایسا نشہ لگتے ہو
میں نے محسوس کیا تم سے جو باتیں کر کے
تم زمانے میں زمانے سے جدا لگتے ہو . . . !
Posted on Mar 24, 2012
سماجی رابطہ