چین اب مجھ کو تہ دام تو لینے دیتے
تیرے فِتنے کہیں آرام تو لینے دیتے
آپ نے اُس کا تڑپنا بھی گوارہ نہ کیا
دلِ مضطر سے کوئی کام تو لینے دیتے
موت بھی بس میں نہیں ہے ترے مجبوروں کی
زندگی میں کوئی الزام تو لینے دیتے
پل میں منزل پہ اڑا لائے فنا کے جھونکے
لطف رک رک کے بہر گام تو لینے دیتے
ہاتھ بھی اُن کی نگاہوں نے اٹھانے نہ دیا
دلِ بے تاب ذرا تھام تو لینے دیتے
سیف ہر بار اشاروں میں کیا اُس کو خطاب
لوگ اُس بت کا نام تو لینے دیتے
Posted on Nov 17, 2012
سماجی رابطہ