مجھ کو بچپن وہ یاد آتا ہے
مجھ کو بچپن وہ یاد آتا ہے
روز آکر مجھے رلاتا ہے
میری ماں جب مجھے لگاتی گلے
ابو کاندھے پہ جب اٹھاتے تھے
میری بہنیں مجھے ستاتی تھی
بھائی میرے مجھے ہنساتے تھے
کتنا پیارا تھا وہ میرا بچپن
کتنی پیاری تھی وہ میری سکھیان
میری گڑیا کی جب ہوئی شادی
میری آنکھوں سے اشک بہتے تھے
یاد آئے بدائی میری مجھے
گھر کے سب رو رہے تھے جب میرے
بےبسی میں میں بھی روئی تھی
اپنے بابُل کا چھوڑ کر انگنا
پرائے دیس میں تھے لوگ انجانے
رو رہی آنکھ یاد کر کے وہ دن
دل میرا بھی تڑپ رہا ہے یہاں
میری ماں بھی وہاں روتی ہے بہت
نا میں ان کی رہی نا اپنی ہوں
اب تو بس زندگی میں ہیں یادیں
اور میں ہوں میری تنہائی ہے
میری بچپن کی صرف یادیں ہیں
اپنا بچپن یاد جب بھی کرو
یہ نظم پڑھ کے خوب رو لینا ! ! ! !
جمعہ, 14 اکتوبر 2011