تو ہوا کے ہاتھ پہ چاہتوں کا دیا جلانے کی ضد نا کر
تو ہوا کے ہاتھ پہ چاہتوں کا دیا جلانے کی ضد نا کر
یہ اُداس لوگوں کا شہر ہے یہاں مسکرانے کی ضد نا کر
میں ہوں دوستو کا ڈسا ہوا ، میرا غم ہے حد سے بڑھا ہوا
میں شکستہ گھر کی مثال ہوں میرے پاس آنے کی ضد نا کر
میں تیری غزل تو نہیں ہوں نا جو ہر ایک لب پہ سجا رہوں
میں تو ایک مصرعہ درد ہوں مجھے گنگنانے کی ضد نا کر
ابھی لوٹ آ ، ابھی وقت ہے ابھی جان باقی ہے جسم میں
تجھے علم ہے میری جان ہے تو ، مجھے آزمانے کی ضد نا کر . . . !
ہفتہ, 17 مارچ 2012