بہار آئی
بہار آئی تو جیسے یکبار
لوٹ آۓ ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے، شباب سارے
جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے
جو مٹ کے ہر بار پھر جئیے تھے
نکھر گۓ ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سسے مشک بو ہیں
جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ملال ِاحوالِ دوستاں بھی
خمارِ آغوشِ مہوشاں بھی
غبارِ خاطر کے باب سارے
تیرے ہمارے
سوال سارے ، جواب سارے
بہار آ ئی تو کُھل گۓ ہیں
نۓ سرے سے حساب سارے
ہفتہ, 02 مارچ 2013