کب چراغوں کی ضرورت ہے
کب چراغوں کی ضرورت ہے ملاقاتوں میں
روشنی ہوتی ہے کچھ اور ہی ان راتوں میں
سر پہ جھکتا ہوا بادل ہے کہ اک یاد کوئی
اور بھی گہری ہوئی جاتی ہے برساتوں میں
ایک خوشبو سی کسی موسم ِ نادیدہ کی
آخری چیز بچی عشق کی سوغاتوں میں
یہ جو بنتا ہے اجڑتا ہے کسی خواب کے ساتھ
ہم نے اک شہر بسا رکھا ہے ان ہاتھوں میں
نقش کچھ اور بنائے گئے سب چہروں پر
بھید کچھ اور چھپائے گئے سب ذاتوں میں
شاعری،خواب،محبت، ہیں پرانے قصے
کس لیے دل کو لگائے کوئی ان باتوں میں
ہفت خواں یوں تو ملے عشق کے اس رستے پر
ہجر ہی منزل ِ مقصود ہوئی ، ساتوں میں
دست بردار ہوئے ہم تو تمناؤں سے
عمر گزری چلی جاتی تھی مناجاتوں میں
پیر, 19 نومبر 2012