در و دیوار ہیں ، مکان نہیں
در و دیوار ہیں ، مکان نہیں
واقعہ ہے ، یہ داستان نہیں
وقت کرتا ہے ہر سوال کو حل
زیست مکتب ہے امتحان نہیں
ہر قدم پر ہے اک نئی منزل
راستوں کا کہیں نشان نہیں
رنگ آنسو ہی ترجمان نہیں
دل سے نکلی ہوئی صدا کے لیے
کچھ بہت دور آسمان نہیں
کل کو ممکن ہے اک حقیقت ہو
آج جس بات کا گمان نہیں
شور کرتے ہیں ٹوٹتے رشتے
ہم کو گھر چاہیے مکان نہیں
خواب ، ماضی ! سراب ، مستقبل !
اور “ جو ہے “ وہ میری جان “نہیں“
اتنے تارے تھے رات لگتا تھا
کوئی میلہ ہے آسمان نہیں
شاخ سدرہ کو چھو کے لوٹ آیا
اس سے آگے میری اُڑان نہیں
یوں جو بیٹھے ہو بے تعلق سے
کیا سمجھتے ہو میری زبان نہیں
کوئی دیکھے تو موت سے بہتر
اک طرف میں ہوں اک طرف تم ہو
سلسلہ کوئی درمیان نہیں
پیر, 04 فروری 2013