غم ِ ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
غم ِ ہائے روز گار میں الجھا ہوا ہوں میں
اس پر ستم یہ ہے اسے یاد آرہا ہوں میں
ہاں اُس کے نام میں نے کوئی خط نہیں لکھا
کیا اُس کو یہ لکھوں کہ لہو تھوکتا ہوں میں
کرب ِ غم ِ شعور کا درماں نہیں شراب
یہ زہر ہےاثر ہے اسے پی چکا ہوں میں
اے وحشتو ! مجھے اسی وادی میں لے چلو
یہ کون لوگ ہیں، یہ کہاں آگیا ہوں میں
میں نے غم ِ حیات میں تجھ کو بھلا دیا
حسن ِ وفا شعار، بہت بے وفا ہوں میں
عشق ایک سچ تھا تجھ سے جو بولا نہیں کبھی
عشق اب وہ جھوٹ ہے جو بہت بولتا ہوں میں
دنیا میرے ہجوم کی آشوب گاہ ہے
اور اپنے اس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوں میں
پیر, 04 فروری 2013