اخلاق نہ برتیں گے
اخلاق نہ برتیں گے، مداوا نہ کریں گے
اب ہم بھی کسی شخص کی پروا نہ کریں گے
کچھ لوگ کئی لفظ غلط بول رہے ہیں
اصلاح مگر ہم بھی اب اصلا نہ کریں گے
کم گوئی کہ اک وصفِ حماقت ہے بہ ہرطور
کم گوئی کو اپنائیں گے چہکا نہ کریں گے
اب سہل پسندی کو اپنائیں گے وتیرہ
تادیر کسی باب میں سوچا نہ کریں گے
غصہ بھی ہے تہذیبِ تعلق کا طلبگار
ہم چپ ہیں، بھرے بیٹھے ہیں، غصہ نہ کریں گے
کل رات بہت غور کیا ہے سو ہم اے جون
طے کر کے اٹھے ہیں کہ تمنا نہ کریں گے۔
جمعرات, 21 فروری 2013