شعراء 

سر صحرا حباب بیچے ہیں


سر ِ صحرا حباب بیچے ہیں
لب ِ دریا سراب بیچے ہیں

اور تو کیا تھا بیچنے کے لیے
اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

خود سوال ان لبوں سے کر کے میاں
خود ہی ان کے جواب بیچے ہیں

زلف کوچوں میں شانہ کش نے ترے
کتنے ہی پیچ و تاب بیچے ہیں


شہر میں ہم خراب حالوں نے
حال اپنے خراب بیچے ہیں

جان من تیری بے نقابی نے
آج کتنے نقاب بیچے ہیں

میری فریاد نے سکوت کے ساتھ
اپنے لب کے عذاب بیچے ہیں

بدھ, 06 فروری 2013

اس زمرہ سے آگے اور پہلے

اس سے آگےاس سے پہلے
تھوک دے خونتمہیں کتنا یہ بولا تھا
متن لکھیں اور تلاش کریں
© sweb 2012 - All rights reserved.