تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
تم حقیقت نہیں ہو حسرت ہو
جو ملے خواب میں وہی دولت ہو
میں تمھارے ہی دم سے زندہ ہوں
مر ہی جاٶں جو تم سے فرصت ہو
تم ہو خوشبو کے خواب کی خوشبو
اور اتنی ہی بے مروت ہو
تم ہو انگڑائی رنگ و نکہت کی
کیسے انگڑائی سے شکایت ہو
کس طرح چھوڑ دوں تمھیں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو
کس لئے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو
داستاں ختم ہونے والی ہے
تم مری آخری محبت ہو
پیر, 04 فروری 2013