وہ خون بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے
سوچا ہے کہ اب کار ِ مسیحا نہ کریں گے
وہ خون بھی تھوکے گا تو پروا نہ کریں گے
اس بار وہ تلخی ہے روٹھے بھی نہیں ہم
اب کے وہ لڑائی ہے کہ جھگڑا نہ کریں گے
یاں اس کے سلیقے کے ہیں آثار تو کیا ہم
اِس پر بھی یہ کمرہ تہ و بالا نہ کریں گے
اب نغمہ طرازانِ برا فروختہ اے شہر
وا سوخت کہیں گے غزل، انشا نہ کریں گے
ایسا ہے کہ سینے میں سلگتی ہیں خراشیں
اب سانس بھی ہم لیں گے تو اچھا نہ کریں گے
جون ایلیا
__________________
جمعرات, 21 فروری 2013