یہ عجیب دل لگی ہے
اے تغیرِزمانہ یہ عجیب دل لگی ہے
نہ وقارِ دوستی ہے نہ مجال دشمنی ہے
یہ ظلمتیں چھنیں جو ترے سرخ آنچلوں میں
انہی ظلمتوں سے شاید مرے گھر میں روشنی ہے
میرے ساتھ تم بھی چلنا ،مرے ساتھ تم بھی آنا
زرا غم کے راستوں میں بڑی تیز تیرگی ہے
یہ مشاہدہ نہیں ہے مرے درد کی صدا ہے
میرے داغِ دل لٹے ہیں تیری بزم جب سجی ہے
غم زندگی کہاں ہے ابھی وحشتوں سے فرصت
ترے ناز اٹھا ہی لیں گے ابھی زندگی پڑی ہے
جسے اپنا یار کہنا اسے چھوڑنا بھنور میں
یہ حدیث دلبراں ہے یہ کمال دلبری ہے
وہ گزر گیا ہے ساغر کوئ قافلہ چمن سے
کہیں آگ جل رہی ہے کہیں راکھ سو گئ ہے
ہفتہ, 02 مارچ 2013