اچھی نہیں نزاکت احساس اس قدر
آبادیوں میں دشت کا منظر بھی آئیگا
گزرو گے شہر سے تو میرا گھر بھی آئیگا
سیراب ہو کے شاد نا ہو راہ رواں شوق
رستے میں تشنگی کا سمندر بھی آئیگا
اچھی نہیں نزاکت احساس اس قدر
شیشہ اگر بنو گے تو پتھر بھی آئیگا
دیر و حرم میں خاک اڑاتے چلے چلو
تم جسکی جستجو میں ہو وہ گھر بھی آئیگا
اس واسطے اٹھاتے ہیں کانٹوں کے ناز ہم
اک دن تو اپنے ہاتھ گل تر بھی آئیگا
روداد عشق اس لیے اب تک نا کی بیاں
دل میں جو درد ہی وہ زبان پر بھی آئیگا
بیٹھا ہوں کب سے کوچہ قاتل میں سر نگوں
قاتل کے ہاتھ میں کبھی خنجر بھی آئیگا
جس دن کا مدتوں سے ہے نوشاد انتظار
کیا جانے دن ہمیں وہ میسر بھی آئیگا
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ