اپنی مرضی سے جدا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
شاید اب کے بیوفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
دیکھنا ہم ایک دن گرد سفر ہوجائیں گے
رستوں سے آشنا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
گردش حالات سے بس کٹ گئے ہیں راستے
قابل قید و سزا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
کیا خبر تھی اس قدر نا آشنا ہو جائیں گے
آج کل پہچانتا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
فاصلوں سے بھی گزارنا پھر ذرا سا دیکھنا
ایسا لگتا ہے خفا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
ایک دوجے کی بہت تعریف کرنا جا بجا
مان لے دل کا برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں
Posted on Aug 25, 2012
سماجی رابطہ