گلی کوچوں میں برگ خشک کی صورت بکھرنا تھا
ہوا سے دوستی کا کوئی تو انجام ہونا تھا
یہ ساری عمر کس آشُفْتَگی میں رائیگاں کر دی
اسی کو یاد رکھا ہے جسے دل سے بھلانا تھا
عجب وحشت کا عالم ہے سمجھ میں کچھ نہیں آتا
سفر کی شب مسافر کو کہاں خیمہ لگانا تھا
دیے جو بام پر رکھے تھے میں نے بجھ گئے سارے
اسی تاریک شب میں اسکو میرے گھر آنا تھا
وہ جب اوجھل ہوا تو ہم بھی اپنے آپ سے چونکے
اسے آواز دینی تھی اسے واپس بلانا تھا
Posted on Oct 20, 2011
سماجی رابطہ