کہوں کس سے قصۂ درد و غم، کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے
جو انیس ہے تری یاد ہے، جو شفیق ہے دلِ زار ہے
تو ہزار کرتا لگاوٹیں میں کبھی نہ آتا فریب میں
مجھے پہلے اس کی خبر نہ تھی ترا دو ہی دن کا یہ پیار ہے
یہ نوید اوروں کو جا سنا، ہم اسیرِ دام ہیں اے صبا
ہمیں کیا چمن ہے جو رنگ پر، ہمیں کیا جو فصلِ بہار ہے
وہ نظرجو مجھ سے ملا گئے، تو یہ اور آفتیں ڈھا گئے
کہ حواس و ہوش وخرد ہے اب، نہ شکیب و صبر و قرار ہے
مری چشم کیوں نہ ہو خوں فشاں، نہ رہی وہ بزم نہ وہ سماں
نہ وہ طرزِ گردشِ چرخ ہے، نہ وہ رنگِ لیل و نہار ہے
جہاں کل تھا غلغلۂ طرب، وہاں ہائے آج ہے یہ غضب
کہیں اِک مکاں ہے گرا ہوا، کہیں اِک شکستہ مزار ہے
غم و یاس و حسرت و بے کسی کی ہوا کچھ ایسی ہے چل رہی
نہ دلوں میں اب وہ امنگ ہے، نہ طبیعتوں میں ابھار ہے
ہوئے مجھ پہ جو ستمِ فلک، کہوں کس سے اس کو کہاں تلک
نہ مصیبتوں کی ہے کوئی حد، نہ مرے غموں کا شمار ہے
مرا سینہ داغوں سے ہے بھرا، مرے دل کو دیکھیے تو ذرا
یہ شہیدِ عشق کی ہے لحد، پڑا جس پہ پھولوں کا ہار ہے
میں سمجھ گیا وہ ہیں بے وفا مگر ان کی راہ میں ہوں فدا
مجھے خاک میں وہ ملا چکے، مگر اب بھی دل میں غبار ہے
مجھے رحم آتا ہے دیکھ کر ترا حال اکبرِ نوحہ گر
تجھے وہ بھی چاہے خدا کرے، کہ تو جس کا عاشقِ زار ہے
کہوں کس سے قصۂ درد و غم
Posted on Apr 17, 2013
سماجی رابطہ