ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نا سنو تو بہتر ہے

ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نا سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نا لاگو تو بہتر ہے
کل جو تھا وہ آج نہیں جو آج ہے کل مٹ جائیگا
روکھی سوکھی جو مل جائے شکر کرو تو بہتر ہے
کل یہ تب و تاوان نا رہیگی ٹھنڈا ہو جائیگا لہو
نام خدا ہو جوان ابھی کچھ کر گزرو تو بہتر ہے
کیا جانے کیا رُت بدلے حالت کے کوئی ٹھیک نہیں
اب کے سفر میں تم بھی ہمارے ساتھ چلو تو بہتر ہے
کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے . . . . !

Posted on Apr 25, 2012