نئے ستم کوئی ایجاد بھی نہیں کرتا

کسی کے ظلم و ستم یاد بھی نہیں کرتا
عجیب شہر ہے فریاد بھی نہیں کرتا
کوئی تو ہے جو پرندوں کو بال و پر دے کر
زمیں کی قید سے آذاد بھی نہیں کرتا
نا جانے کیسی قیامت گزر گئی اب کے
غریب شکوہ بے داد بھی نہیں کرتا
کبھی کبھی یہ گراں گوش چیخ پڑتا تھا
یہ کام اب میرا ہم زاد بھی نہیں کرتا
وہی ثالب و سلاسل ، سکوت ، سنگ زانی
نئے ستم کوئی ایجاد بھی نہیں کرتا . . . . !

Posted on Jan 18, 2012