نظریں ملیں تو پیار کا اظہار کر گیا
بولا تو بات بات سے انکار کر گیا
آنکھوں نے خشت خشت چُنی رات کی فصیل
خُورشیدِ صبح پھر اسے مسمار کر گیا
جتنا اُڑا ہوں، اُتنا فلک بھی ہوا بلند
کون اس قفس میں مجھ کو گرفتار کر گیا
بن بن کے پانیوں کے بھنور ٹُوٹتے گئے
میں ڈُوبتا ہوا بھی ندی پار کر گیا
ورنہ یہ بوجھ کون اُٹھاتا تمام عمر
اچھا ہوا کہ پہلے وہی وار کر گیا
میں لفظ ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک بھی گیا عدیم
وہ پُھول دے کے بات کا اظہار کر گیا
Posted on May 21, 2011
سماجی رابطہ