اسے اپنے فردا کی فکر تھی

اسے اپنے فردا کی فکر تھی
وہ جو میرا واقف حال تھا
وہ جو اسکی صبح عروج تھی
وہی میرا وقت زوال تھا

میرا درد وہ کیسے جانتا
میری بات وہ کیسے مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر میں تھا
اسے روکنا بھی مُحال تھا

کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر
میں یہ پوچھ پوچھ کر تھک گیا
وہ جواب مجھے نا دے سکا
وہ تو خود سراپا سوال تھا

وہ جو اسکے سامنے آ گیا
وہی روشنی میں نہا گیا
عجب اسکی ہیبت حسن تھی
عجب اسکا رنگ جمال تھا

سمے واپسی اسے کیا ہوا
نا وہ روشنی ، نا وہ تازگی
وہ ستارہ کیسے ٹوٹ گیا
وہ جو اپنی مثال آپ تھا

وہ ملا تو صدیوں باد بھی
میری لب پر کوئی گلہ نا تھا
اسے میری چپ نے رلا دیا
جسے گفتگو میں کمال تھا

میری ساتھ وہ لگ کر رو دیا
مجھے فقط وہ اتنا کہہ سکا
جسے جانتا تھا میں زندگی
وہ تو بس وہم و گمان تھا . . . !

Posted on Jun 26, 2012