اسے گنوا کر تلاش کرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے
سراب رستوں پہ ایسے چلنا عجیب عادت بنا رکھی ہے
گزشتہ لوگوں کا ذکر لے کر کہیں خیالوں میں لفظ چننا
اداس لمحوں میں رنگ بھرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے
یہ آسرے کچھ بنا کے رکھنا ذرا ذرا سی رفاقتوں کے
گماں کی ڈ وری سے خواب بننا عجیب عادت بنا رکھی ہے
کتابیں لکھنا محبتوں کی کسی کو لکھنا چھپا چھپا کے
کوئی جو پوچھے تو پھر مکرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے
یہ کیا ہوا کہ بچھڑکے اس سے میں اب کہ خود سے خفا خفا ہوں
کوئی بھی رت ہو اداس پھرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے
کسی کو پہلی ہی فرصتوں میں طویل چاہت کی آرزو تھی
مگر کسی نے خفا سے ملنا عجیب عادت بنا رکھی ہے
شکستہ پتوں کے گھر بنانا مٹانا پیڑ وں سے نام جا کر
گلاب پیروں تلے مسلنا عجیب عادت بنا رکھی ہے
میں اپنے حصّے کی روشنی ہوں نشان ہوں اپنی منزلوں کا
یہ کون سمجھے کہ میں نے جلنا عجیب عادت بنا رکھی ہے
اسے گنوا کر تلاش کرنا عجیب عادت بنا رکھی ہے
Posted on Jan 16, 2013
سماجی رابطہ