یہ شہر کسی آئینہ کردار بدن پر

رکتا بھی نہیں ٹھیک سے چلتا بھی نہیں ہے
یہ دل کے تیرے بعد سنبھلتا بھی نہیں ہے

یہ شہر کسی آئینہ کردار بدن پر
الزام لگاتے ہوئے ڈرتا بھی نہیں ہے

اک عمر سے ہم اس کی تمنا میں ہیں بے خواب
وہ چند جو آنگن میں اُترتا بھی نہیں ہیں

پھر دل میں تیری یاد کے منظر ہیں فروزاں
ایسے میں کوئی دیکھنے والا بھی نہیں ہے

اس عمر کے سہرہ میں تیری یاد کا بادل
جاتا بھی نہیں اور برستا بھی نہیں ہے

ہمراہ بھی کشش سے نہیں رہتا ہمارے
اور بام رفاقت سے اترتا بھی نہیں ہے . . . !

Posted on Jul 24, 2012