نہیں ملتی چھٹی تو آج تو ریزائن دے
سال میں اک بار تو آتا ہے ویلن ٹائن دے
اگر آج بھی وہ ملنے لیٹ پہنچی
گزارش کروں گا کے تو بھی کوئی فائن دے
نور بھر دے دل والوں کے چہرے میں
ہونٹوں پر ہنسی اور آنکھوں میں شائن دے
تنہا تنہا یہ جیون کیسے گزرے گا
ہمیں جو بھی خوشیاں دے جوائن دے
ہر کسی سے اس کا ساتھی ملا دے
اور مجھے بس سجنی مائن دے
اس کے سوا اور کوئی دیوانی ملتی بھی تو نہیں
غریب کس کس سے کہے کے لائن دے
یہ امنگوں بھری شام پھر نہیں آئے گی
سال میں اک بر تو فل ٹائم دے
بس پل دو پل کے لیے مجھے سے ملتی ہو
کسی شام تو رفاقت 6 ٹو 9 دے
رنج و غم کے نقوش و اثر مٹا کے
میرے وجود کو پر سکون عاشق کا ڈیزائن دے
اک دن قاضی کو اس کے گھر لے کے جانا ہے
ڈنکے کی چوٹ پے کہنا ہے چل سائن دے
جو نشہ دیکھا آج ان کی آنکھوں میں
کون شرابی کہے گا کے وائن دے
کرتے رہو سب کو وش لیکن
پہلے میری طرف سے آپ کو ہیپی ویلن ٹائن دے
نہیں ملتی چھٹی تو آج تو ریزائن دے
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ