سنو ! دسمبر
نئی حکایت محبتوں کی
شکایتوں کی
بجھے بجھے سے حروف لے کر
کہر میں ڈوبی سیاہیوں کی
ورق ورق پر اُتارْنا ہے
اداس شاموں کے پھول چن کر
سنو دسمبر
اُسے پکارو
اُسے بلاؤ
سنو دسمبر . . . اُسے ملا دو
اب اس سے پہلے کے سانس نکلے
اب اس سے پہلے کے سال گزرے
وہی لکیریں وہی ستارا
میری لکیروں میں قید کر دو
یا آخری شب کے آخری پل
کوئی بڑا اختتام کر دو
یہ زندگی بھی تمام کر دو
سنو دسمبر . . . اُسے ملا دو . . .
Posted on Feb 16, 2011
سماجی رابطہ