اب کے مقابلے پہ

اب کے مقابلے پہ

وفا کے بھیس میں کوئی رقیب شہر بھی ہے
ہزار ! کے شہر کے قاتل طبیب شہر بھی ہے

وہی سپاہ ستم خیمہ زن ہے چاروں طرف
جو میرے بخت میں تھا اب نصیب شہر بھی ہے

ادھر کی آگ ادھر بھی پہنچ نا جائے کہیں
ہوا بھی تیز ہے جنگل قریب شہر بھی ہے

اب اس کے ہجر میں روتے ہیں اس کے گھائل بھی
خبر نا تھی کے وہ ظالم حبیب شہر بھی ہے

یہ راز نعرہ منصور ہی سے ہم پہ کھلا
کے چوب منبر مسجد ثالب شہر بھی ہے

کڑی ہے جنگ کے اب کے مقابلے پہ ` فراز `
امیر شہر بھی ہے اور خطیب شہر بھی ہے

Posted on Feb 16, 2011