بے نور آنکھوں میں کوئی خواب تو دو

بے نور آنکھوں میں کوئی خواب تو دو

بے نور آنکھوں میں کوئی خواب تو دو ،
میری بے قرار راتوں کا کچھ حساب تو دو ،

تم خفا ہو مجھ سے لیکن پھر بھی اگر ،
ہو سکے میرے ان سوالوں کا جواب تو دو ،

ہم نے جس میں لکھے تھے کچھ وعدے ،
اگر ممکن ہے تو میری وہ کتاب تو دو ،

دے نہیں سکتے اگر پیار تو ایسا کرو ،
غم دو ، زہر دو ، شراب تو دو ،

جس میں بھیگ جائے میرے دل کی دنیا ،
ایسا کوئی ان آنکھوں میں سیلاب تو دو ،

کبھی تم کہا کرتے تھے کے آپ بہت اچھے ہو ،
اب برا ہی سہی مگر کوئی خطاب تو دو . . . . . ! ! ! !

Posted on Feb 16, 2011