چشم ساقی

چشم ساقی

چشم ساقی نے یہ کیا کھیل رچا رکھا ہے
کوئی زاہد تو کوئی مکار بنا رکھا ہے

جو پھنسا پھر نا کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری زلفوں نے عجب جال بچھا رکھا ہے

حسن ہو ، یا عشق ہو دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک مگر نام جدا رکھا ہے

رخ پے لہراتی ہیں کبھی شانوں سے الجھ پڑتی ہیں
تو نے زلفوں کو بہت سر پے چڑھا رکھا ہے

تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مےخانے میں کیا رکھا ہے . . !

Posted on Feb 16, 2011