چہرہ نہیں رہا !

چہرہ نہیں رہا !

دنیا کا بھی کچھ برا تماشہ نہیں رہا
دل چاہتا تھا جس طرح ویسا بھی نہیں رہا

تم سے ملے بھی ہم ، جدائی کے موڑ پر
کشتی ہوئی نصیب تو دریا نہیں رہا

کہتے تھے اک پل نا جیئں گے تیرے بغیر
ہم دونوں رہ گئے ، وہ وعدہ نہیں رہا

کٹے ہیں تیرے بعد اس طرح روز و شب
میں سانس لے رہا تھا پر زندہ نہیں رہا

آنکھیں بھی دیکھ دیکھ کے خواب ، آ گئی ہیں تنگ
دل میں بھی اب وہ شوق ، وہ لپکا نہیں رہا

کیسے ملائیں آنکھ کسی آئینے سے ہم
ہمارے پاس تو اب چہرہ نہیں رہا !

Posted on Feb 16, 2011