دن گزرتے ہیں کہاں رات کہاں ہوتی ہے

دن گزرتے ہیں کہاں رات کہاں ہوتی ہے
درد کے ماروں سے یہ بات کہاں ہوتی ہے

ایک سے چہرے تو ہوتے ہیں اس دنیا میں
ایک سی صورت حالات کہاں ہوتی ہے

زندگی کے وہ کسی موڑ پہ جب مل ہی گئے
مل تو جاتے ہیں ملاقات کہاں ہوتی ہے

آسمانوں سے کوئی بوند نہیں برسے گی
جلتے صحراؤں میں برسات کہاں ہوتی ہے

یوں تو اوروں کی بہت باتیں سنائی ان کو
اپنی جو بات ہے وہ بات کہاں ہوتی ہے

جیسی آغاز محبت میں ہوا کرتی تھی
ویسی پھر شدت جذبات کہاں ہوتی ہے

پیار کی آگ بنا دیتی ہے کندن جن کو
ان کے ذہنوں میں بھلا ذات کہاں ہوتی ہے

Posted on Feb 16, 2011