کچھ دھجیاں ہیں

کچھ دھجیاں ہیں

جو دن گزر گئے ہیں تیرے التفات میں
میں ان کو جوڑ لوں کے گھٹا دوں حیات میں

کچھ میں ہی جانتا ہوں جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی میرے واقعات میں

میرا تو جرم تذکرہ عام ہے مگر
کچھ دھجیاں ہیں میری زلیخا کے ہاتھ میں

آخر تمام عمر کی وسعت سماں گئی
اک لمحہ گزشتہ کی چھوٹی سی بات میں

اے دل ذرا سی جُرات مندی سے کام لے
کتنے چراغ ٹوٹ گئے احتیاط میں

Posted on Feb 16, 2011